ہے آج جو
ہے آج جو بہ فضلِ خدا آمدِ صنم
ایماں کرے ہے دل سے جدا آمدِ صنم
اپنے سے کر کے وعدہ گیا غیر کی طرف
ہر بار کر گئی ہے دغا آمدِ صنم
ہنگامہ ہائے بے خودی میں کہہ گیا مگر
"یہ آمدِ خدا ہوئی یا آمدِ صنم"
آنکھ اور دل بچھائے ہیں پابوسی کے لئے
ہے رشک فرش پر جو سنا آمدِ صنم
آذر نے اس کی چال تراشی ہے کس طرح
تھی مجھ کو بسکہ سیلِ فنا آمدِ صنم
کارِ جہاں سب ان کے قدم پر نثار ہے
کرتی ہے مجھ کو رشتہ بپا آمدِ صنم
ہر ایک گام پر کروں سجدے ہزار ہا
دیتی ہے حکمِ ناصیہ سا آمدِ صنم
میرے طواف کو بھی پہنچتی ہے اک ہما
لاتی ہے ساتھ بختِ رسا آمدِ صنم
تقدیر نے بھی رشک کیا آج *رند* پر
زندہ کیا بوقتِ قضا آمدِ صنم
Babita patel
29-Jun-2023 03:59 PM
nice
Reply